Tribe Republic
Tribe Republic is a Digital Tree having shoots of numerous digital initiatives

رہائشی مکان کی خریدوفروخت کا طریقہ کار اور احتیاطی تدابیر

655

رہائشی مکان کی خریدوفروخت کا طریقہ کار اور احتیاطی تدابیر
1۔ پہلے تو یہ دیکھیے کہ فروخت کرنے والے کے پاس مکان کی ملکیت کے تمام کاغذات اصل میں موجود ہوں، انہیں اچھی طرح چیک کیجے۔ کاغذات مسلسل اور ترتیب سے ہونے چاہیے یعنی الاٹمنٹ لیٹر سے پیمنٹ کی رسیدیں، پہلےآنرکے نام پر ہوں اور مکان اس کے نام پر لیز ہوا ہو ۔ اس کے بعد مکان جب بھی بکا ہو نئے مالک کے نام پر ٹرانسفر کے کاغذات بغیر کسی گیپ کے موجودہ مالک تک کے۔

2۔ مکان کی کنسٹرکشن کے کاغذات یعنی کنسٹرکشن کی مطالقہ اداروں سے پرمیشن، نقشہ پاس ہو، نقشے کے مطابق تعمیر ، تمام یوٹیلیٹی کنیکشنس کی اپروال وغیرہ ۔ مکان پر کبھی قرضہ لیا گیا ہو تو اس کے کاغذات بمعہ لون کی مکمل واپسی اور قرضہ دینے والے ادارے کا این او سی وغیرہ۔

جب کوئی پلاٹ لینے کا ارادہ ہو تو جو شخص اس پلاٹ کی ملکیت کا دعویدار ہو، اس سے اس بات کا ثبوت مانگا جاتا ہے کہ کیا واقعی وہ اس پلاٹ کا مالک ہے یا نہیں۔۔۔ثبوت دینے کیلئے وہ شخص پلاٹ کی رجسٹری آپکو دکھاتا ہے جس پر پلاٹ کا محلِ وقوع ، حدودِ اربعہ، پرانے مالک کا نام اور موجودہ مالک کا نام ،پلاٹ کب خریدا گیا تھا اور گواہاں کے دستخط وغیرہ ہوتے ہیں اور یہ سب گورنمنٹ کے ایک اسٹامپ پیپر پر درج ہوتا ہے۔۔۔ لیکن چونکہ یہ سب کچھ جعلی بھی بنایا جاسکتا ہے، اسلئے رجسٹری کا انتقال نمبر بھی دیکھنا پڑتا ہے، یہ انتقال نمبر دراصل گورنمنٹ کی فائلوں میں اس پلاٹ کی تازہ ترین ملکیت اور اس رجسٹری کے حوالے سے ایک ریفرنس نمبر (یا شائد فائل نمبر) ہوتا ہے۔۔۔جب یہ سب کچھ چیک کرلیا تو اسکے بعد اس پلاٹ کی فرد نکلوائی جاتی ہے۔ فرد ایک ڈاکومنٹ ہے جو گورنمنٹ کی طرف سے مقرر کئے گئے پٹواریوں کے پاس ہوتا ہے اس میں اس پلاٹ کا حدود اربعہ اور ملکیت کی تازہ ترین معلومات ہوتی ہیں۔ ایک فرد جب نکلوائی جاتی ہے تو اسکی معیاد 15 دن ہوتی ہے اسکے بعد وہ ایکسپائر ہوجاتی ہے اور نئی فرد نکلوانی پڑتی ہے۔ جب آپ نے فرد نکلوا لی اور اس فرد میں درج مندرجات سے آپ مطمئن ہوگئے، تب پراپرٹی خریدنے کیلئے کچھ ایڈوانس (بیعانہ) وغیرہ دیکر نئی رجسٹری بننے کیلئے دے دیتے ہیں۔ جب وہ رجسٹری پرنٹ ہوکر آجاتی ہے تو رقم کی بقیہ ادائیگی کرکے گواہان کی موجودگی میں دستخط اور مہریں وغیرہ لگ جاتی ہیں اور اس رجسٹری کو دوبارہ کچہری میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے اسکا نیا انتقال نمبر لگ کر آجاتا ہے۔۔۔

دیکھئے فرد دراصل گورنمنٹ کا تازہ ترین ریکارڈ ہے کہ یہ پلاٹ کہاں ہے کیسا ہے اور کس کا ہے۔۔جب آپ کوئی پرانی فرد لیتے ہیں مثلاّ ایک مہینہ پرانی، تو ممکن ہے کہ اس دوران یہ پلاٹ بک کر کسی اور پارٹی کے نام منتقل ہوچکا ہو۔۔چنانچہ اگر آپ latest فرد نکلوائیں گے تو آپکو پتہ چل جائے گا کہ اس وقت یہ کس کی ملکیت ہے

یہ خریدوفروخت کسی وکیل کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے
لیکن خیال رکھیں بعض اوقات وکیل بھی کچھ فراڈیوں سے ملے ہوتے ہیں

اس کام کے لئے کسی مستند اور نسبتاً معروف ریئل اسٹیٹ ایجنسی سے رابطہ کرنا بھی سود مند رہتا ہے۔ آج کل تو پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں اسٹیٹ ایجنسیوں کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ اپنے قریب ترین اسٹیٹ ایجنسی سے رابطہ کیجئے وہ پلاٹ، مکان کی کل قیمت کا ایک یا دو فیصد بطورکمیشن وصول کرتے ہیں۔ باقی سارا کام ایجنٹ کا ہوتا ہے۔ فیس بھی پیشگی طلب نہیں کرتے بلکہ جس روز پراپرٹی ڈاکومنٹس آپکے نام ٹرانسفر ہونے کے لئےرجسٹرار آفس میں داخل ہوتے ہیں، اُس روز آپ کو کمیشن ادا کرنا ہوتا ہے۔ ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کے پاس عموماً برائے فروخت جائیداد کے روابط موجود ہوتے ہیں۔ گویا آپ کسی ایک ایجنٹس کی معرفت متعدد جائیداد کی تفاصیل بمعہ قیمت معلوم ہوجاتی ہے۔ اور دوچار ایجنسی کے وزٹس سے مارکیٹ کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے اور کسی بہتر ایجنسی کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔

لیکن کیا یہ فرد فروخت کنندہ کی ذمہ داری نہی ہونی چاہیے کہ وہ ثبوت مہیا کرے رجسٹری کے اصل ہونے کے بارے میں؟

جی نہیں۔ اگر فروخت کنندہ جعل ساز ہوا تو وہ جعلی ثبوت ہی دے گا۔ یہ خریدنے والے کی ذمہ داری ہے کہ فروخت کنندہ کی طرف سے پیش کردہ دستاویزات کو چیک کرے کہ بھگتنا تو اسے پڑے گا، اگر کچھ غلط ہوا تو۔ بیچنے والا تو پیسے لے کر فرار ہوجائے گا۔ آج سے کوئی پندرہ برس قبل ایسا ہی ایک کیس ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ ہم نے ڈیفنس اٹھارٹی جیسے رہائشی اسکیم میں ایم اپارٹمنٹ کا سودا کیا۔ اپارٹمنٹ کا رہائشی مالک کا قریبی عزیز تھا جس نے مالک کے اوریجنل شناختی کارڈ سمیت اپارٹمنٹ کے تمام اوریجنل کاغذات دکھائے جو درست تھے۔چنانچہ ہم نے اُس سے سودا طے کرلیا اور بیعانہ بھی کوئی ڈھائی لاکھ دے دیا۔ رہائشی نے اپارٹمنٹ بھی خالی کردیا۔ پھر ہمیں خیال آیا کہ ابھی تک اصل مالک سامنے کیوں نہیں آیا۔ہم شناختی کارڈ پر درج مالک کے گھر کے پتہ پر پہنچے اور مالک کو ڈیل بتلائی تو وہ سیخ پاہوگیا کہ فلاں کم بخت کی جرات کیسے ہوئی کہ میرے اپارٹمنٹ کو فروخت کرے۔ وہ مسلح افراد کو لے کر گیا اور خالی اپارٹمنٹ پر قبضہ کرلیا۔۔۔ القصہ مختصر کافی جھگڑا فساد ہوا اور ہمیں بمشکل دولاکھ واپس ملے اور 55 ہزار (15 سال پہلے والے  ) پھر بھی نہ ملے۔

ایک بات یاد رکھئے کہ پاکستان میں کوئی پلاٹ، مکان خریدنا ہو یا پلاٹ پر مکان تعمیر کرنا، مختلف جگہوں پر ”رشوت“ دیئے بغیر یہ کا م کبھی بہت مشکل اور کبھی ناممکنات میں سے ہوجاتا ہے اب کہاں کہاں دینا ہے، کب دینا ہے اور کتنا دینا ہے، یہ آپ کو ”متعلقہ پروفیشنل“ ہی بہتر طور پر بتلا سکتا ہے۔ ایک عام آدمی زندگی میں ایک یا دو بار ہی پلاٹ یا مکان خریدتا ہے یا پلاٹ خرید کر مکان تعمیر کرواتا ہے۔ لہٰذا اپنے قرب و جوار یا عزیز و اقارب میں سے تجربہ کار اور مخلص افراد سے رجوع کریں یا پھر کسی ایسے اسٹیٹ ایجنٹ سے رجوع کریں، جس سے آپ کے کسی جاننے والے نے استفادہ کیا ہو اور اس کا تجربہ اطمینان بخش رہا ہو۔یہ ایجنٹ اپنے کمیشن کے علاوہ باقی تمام معاملات میں آپ کو درست رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ بھی کہ کہاں کہاں ، کس کس کو اور کتنا کتنا رشوت دینا ناگزیر ہے۔

سرکاری اہلکاروں کی اس بھتہ خوری (جسے ہم رشوت کہہ رہے ہیں) میں انکا بھتہ دینے کا آسان طریقہ یہ ہےکہ آپ خود کو وقتی طور پر اعلیٰ درجے کا گھامڑ ظاہر کریں اور جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے معصومانہ انداز میں ان اہلکاروں سے پوچھ لیا کریں کہ بھائی صاحب۔۔۔یہ کام کس طرح ہوگا؟ کتنے پیسے لگیں گے مجھے پروسیجر کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے پہلی مرتبہ آیا ہوں بتائیے کتنی فیس دینا پڑے گی۔۔۔یقین کیجئے کہ باقی کے مراحل خودبخود آسان ہونے لگیں گے

ایک بار پھر عرض کردوں کہ سودا کرتے وقت بہت چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ورنہ تھوڑی سی غفلت آپ کی زندگی بھر کی کمائی ڈبوسکتی ہے

پاکستان میں موجود مکانات کی خریدوفروخت کے سلسلہ میں کچھ واقعات مجھے سننے کو ملے تھے جن میں سے دو پیش خدمت ہیں۔
یہ واقعہ 1990ء کا ہے۔ لاہور شہر سے اس ایک صاحب اپنا مکان فروخت کرنا چاہتے تھے جو کہ انہوں نے خود زمین خرید کر وہاں پر تعمیر کروایا تھا اور کافی عرصہ سے وہاں رہ رہے تھے۔ ۔ جب فروخت کرنا کا سوچا تو پراپرٹی ڈیلر کے ذریعہ لوگ مکان دیکھنے آتے رہے لیکن ایک دن کچھ مسلح لوگ آئے اور کہا کہ ہمارا مکان خالی کردیں۔ ہمارے پاس اس مکان کے کاغذات موجود ہیں ۔ اگر عدالت میں بھی جانا ہے تو چلے جائیں۔ اب ان صاحب کو سمجھ نہ آئے بہت ہی سادہ اور شریف النفس آدمی تھے محلہ میں کچھ لوگوں سے مشورہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ لوگ ایک خاص گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ان سے بچنے کا ایک طریق ہے کہ دوسرے گروپ کے بھائی لوگ سے بات کی جائے ۔ ایک آدمی کے ذریعہ دوسرے گروپ سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ مکان بیچنا چاہتے ہیں کیا قیمت چاہتے ہیں۔ اس نے ان سے مکان خرید لیا اور کہا کہ آپ کاغذات اب مجھے دے دیں میں خود سنبھال لوں گا فکر نہ کریں۔ اس طرح ایک خاص آدمی کے ذریعہ ان کا مسئلہ تو حل ہوگیا ۔ عدالتوں کے چکر لگانے سے بچ گئے اور مکان بھی مناسب قیمت میں فروخت ہوگیا۔ لیکن ایسا ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ سب کو معلوم ہے۔
دوسرا واقعہ 1992ء یا 1993ء کا ہے اور یہ بھی لاہور شہر کا ہے۔ ایک صاحب کے پاس ایک پلاٹ موجود تھا لیکن اس کا ایک مسئلہ تھا کہ سڑک کی طرف جو داخلی راستہ مقرر تھا دروازہ کے لئے زیادہ کھلا نہیں تھا۔ ان کے پلاٹ کی پچھلی جانب ایک پلاٹ موجود تھا ۔ انہوں نے سوچا کہ اسے بھی خرید لیں اس طرح ان کو دوسڑکوں کی طرف سے راستہ مل جائے گا ۔ انہوں نے معلومات حاصل کی پلاٹ خرید لیا ۔ کچھ دنوں کے بعد انہوں نے سوچا کہ دوسرے پلاٹ پر سڑک کی طرف دیوار کھڑی کروادیں ، سامان خریدا لیکن اس سے پہلے کہ سامان پہنچے کچھ مسلح افراد آگئے اور کہا کہ آپ اس پلاٹ کو ہم سے خرید لیں۔ ان صاحب نے کہا کہ یہ پلاٹ تو میں خرید چکا ہوں اب یہ میرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بھی کاغذ ہیں ۔ آپ نے عدالت جانا ہے تو چلے جائیں ۔ اس دن سے وہاں کچھ لوگ ڈیرہ ڈال کر ایک جھونپڑی بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ جن کی حفاظت کے لئے اکثر مسلح افراد آتے رہتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر یہ صاحب عدالت کے دروازوں پر دستک دینے کے لئے چلے گئے۔ میں ان سے آخری دفعہ 2009 میں ملا تھا ابھی تک عدالت سے کچھ نہیں ملا معلوم نہیں اب پلاٹ کس کے پاس ہے؟،

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

Comments

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More