Tribe Republic
Tribe Republic is a Digital Tree having shoots of numerous digital initiatives

کورونا۱۹ وائرس کے حوالے سے مختلف سازشی تھیوریز

481

کورونا۱۹ وائرس کے حوالے سے مختلف سازشی تھیوریز

کورونا۱۹ وائرس کے حوالے سے مختلف سازشی تھیوریز چل رہی ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ اسے امریکہ یا کسی مغربی ملک کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا اور مقصد چین کو تباہ کرنا تھا۔
یہ تھیوری اس قدر احمقانہ ہے کہ اس پر بحث کرنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ خود امریکہ میں اب اس وائرس کے دس ہزار سے زائد شکار ہوچکے ہیں اور ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ، کم وبیش اتنے ہی برطانیہ میں نشانہ بنے ہیں اور بھی معلوم نہیں کہاں تک یہ سلسلہ جائے گا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کسی بھی سازشی تھیوری کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ آخر سازشیں ہوتی ہی ہیں۔ یہ بات درست ہے، مگر ہمارے ہاں جہالت اس قدر زیادہ ہے اور لوگ ہر بے پر کی اڑائی پر یقین کر لیتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ عوام کی تربیت کی جائے نہ کہ انہیں مزید فضول تھیوریز میں الجھایا جائے۔ خیر سائنسدانوں نے وائرس کے پیٹرن پر ریسرچ کر کے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ یہ کسی لیبارٹری میں تیار نہیں ہوا اور قدرتی عمل کا نشانہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیا کورونا وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا؟ سائنسدانوں نے جواب دے دیا

نئے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے کچھ حلقوں سے شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ لیبارٹری میں تیار کردہ یا انسانوں کا بنایا ہوا ہے۔

اور اب سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں اس کو بالکل مسترد کردیا ہے۔

نئے کورونا وائرس اور متعلق وائرسز کے جینوم سیکونس ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد سائنسدانوں نے کہا کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ یہ وائرس کسی لیبارٹری یا انسانوں کا بنایا ہوا ہے۔

جریدے جرنل نیچر میڈیسین میں شائع تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ کورونا وائرسز کی متعدد اقسام کے دستیاب جینوم سیکونس کا موازنہ کرنے کے بعد ہم واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ یا کورونا وائرس قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔

اس تحقیق میں امریکا کے اسکریپس ریسرچ انسٹیٹوٹ، آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی، ایڈنبرگ یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور تولین یونیورسٹی کے سائنسدان شامل تھے۔

کورونا وائرسز جراثیموں کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو مختلف نوعیت کے امراض کا باعث بنتے ہیں اور اس حوالے سے سب سے پہلا کورونا وائرس 2003 میں نمودار ہونے والا سارز تھا جس سے چین میں وبا کا آغاز ہوا تھا۔

اس نسل کے وائرس سے دوسری بڑی وبا 2012 میں مرس وائرس سے سعودی عرب میں پھیلنا شرع ہوئی تھی۔

گزشتہ سال 31 دسمبر کو چینی حکام نے عالمی ادارہ صحت کو نوول کورونا وائرس کی وبا سے آگاہ کیا تھا جسے 20 فروری 2020 کو سارز کوو 2 کا نام دیا گیا جبکہ اس سے ہونے والی بیماری کو کووڈ 19 کا نام دیا گیا۔

اب تک اس وائرس سے دنیا بھر میں 2 لاکھ سے زائد افراد متاثر جبکہ 8 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

وبا کے پھیلنے کے ساتھ ہی چینی سائنسدانوں نے اس وائرس کے جینوم کا سیکونس تیار کرلیا تھا اور ڈیٹا کو دنیا بھر سے شیئر کیا۔

اس نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے متعدد تحقیقی اداروں کے اشتراک کے ساتھ اس سیکونس ڈیٹا کی کھوج سے اس کی بنیاد اور ارتقا کو جاننے کی کوشش کی، جس کے لیے وائرس کے متعدد نمایاں فیچرز پر توجہ دی گئی۔

سائنسدانوں نے وائرس کے اسپائک پروٹین سمیت مختلف حصوں کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ اسپائیک پروٹینز میں موجود آر بی ڈی پورشن انسانی خلیات کے باہر موجود ریسیپٹر ایس 2 کو موثر طریقے سے ہدف بناتا ہے۔

اسپائیک پروٹین اتنے موثر طریقے سے انسانی خلیات کو جکرتے ہیں کہ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ قدرتی نتیجہ تو ہوسکتا ہے انسانوں کے ہاتھوں جینیاتی تدوین کا نہیں۔

اس وائرس کے قدرتی ہونے کا ثبوت اس کا مجموعی مالیکولر اسٹرکچر ہے، اگر کوئی ایک کورونا وائرس کو جینیاتی طور پر بدلے، تو وہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کو تعمیر کرے گا جو وائرس کی جانب سے امراض پھیلانے کا ذریع ہے، مگر اس نئے وائررس میں ریڑھ کی ہڈی کی ساخت چمگادڑوں اور پینگولین میں پائے جانے والے وائرسز سے ملتی جلتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ وائرس کے یہ 2 فیچر یعنی اسائیک پروٹین کا آر بی ڈی پورشن اور اس کی ریڑھ کی ہڈی لیبارٹری میں کی جانے والی تدوین کے خیال کو مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ وائرس قدرتی ارتقا کا نتیجہ ہے اور انسانوں کے تیار کرنے کی قیاس آرائیوں کا اب خاتمہ ہوجانا چاہیے۔

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

Comments

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More