Tribe Republic
Tribe Republic is a Digital Tree having shoots of numerous digital initiatives

Kuch nhe hota – کچھ نہیں ہوتا Coronavirus disease (COVID-19) – please stay home – Tribe Republic

448
وہ سب لوگ جن کو لگتا ہے “کچھ نہیں ہوتا-
چھٹیاں ہیں تو سمندر پر چلتے ہیں’ مری چلتے ہیں،” منال چلتے ہیں- سیال چلتے ہیں “کچھ نہیں ہوتا” ان کو اس دنیا کی ہسٹری پڑھنے کی ضرورت ہے- پچھلے سات سو سال میں ہر سو سال بعد وبا پھیلتی رہی اس کی تفصیل کچھ یوں ہے 1300 میں دی بلیک ڈیتھ نامی وبا پھوٹی 1400 میں پلیگ ( طاعون ) کی وبا پھوٹی 1500 میں سمال پاکس ( چیچک ) کی وبا پھوٹی 1600 میں پلیگ ( طاعون کی وبا پھوٹی 1700 میں بھی پلیگ ( طاعون ) نامی وبا پھوٹی 1800 میں کولیرا نامی وبا پھوٹی 1900 میں اسپینش فلو کی وبا پھوٹی اور اب 2000 میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی کسی بھی وباء کا ذکر پڑھ لیں- 1910 میں بھارت میں ہونے والی ہیضہ کی وباء کا حال ہو یا 2003 میں ہانگ کانگ چائنہ میں سارس کی وباء کا احوال ہو؛ ہر جگہ ایسے من موجی اور من چلے لوگ نظر آئینگے جن کے نزدیک تمام احتیاطی تدابیر کے بخیے ادھیڑ کر پبلک مقامات پر جانا بہادری اور شجاعت کی نشانی سمجھا جاتا رہا -کیوں کہ ان کے نزدیک “کچھ نہیں ہوتا” تھا- اور پھر دنیا کو ان کی اس خوامخواہ کی بہادری کی سزا کروڑوں مریضوں’ لاکھوں اموات اور عالمی وباؤں کی صورت میں بھگتنی پڑی اور پھر دنیا میں “بہت کچھ ہوگیا “—-! اس وقت بھی ہم ایک عالمی وباء کا سامنا کر رہے ہیں- جس میں دنیا کے 150 سے زیادہ ممالک اور ایک لاکھ ستر ہزار سے زیادہ لوگ مبتلاء ہیں جب کہ اب تک آٹھ ہزار لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں- اسپین اور اٹلی میں لاک ڈاون ہے – نیو یارک میں ایک پورے ضلع “نوروشیل“ کو “نیشنل گارڈز“ کے حوالے کردیا گیا ہے- ہوبوکن نیو جرسی میں کرفیو نافذ ہے- ایک اندازے کے مطابق صرف امریکا میں پندرہ کروڑ لوگوں کے اس سے بیمار ہونے کی پیشین گوئی ہے
———
پاکستان میں اس کی تعداد کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا کیوں کہ ہماری آدھی سے زیادہ آبادی بیمار ہونے پر ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتی بلکہ آج بھی دیسی ٹوٹکوں اور حکیموں پر اکتفا کرتی ہے اور ہسپتالوں میں بھی ٹیسٹ کرنے کی کٹ جو گیارہ ہزار کی ہے کا فقدان ہے- جو تعداد میڈیا پر بتائی جارہی ہے وہ بھی روز بروز بڑھ رہی ہے- عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق یہ وائرس تین فٹ کے فاصلے سے پھیل سکتا ہے اور کم از کم چھے فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنے کی تجویز ہے– جب کوئی مریض جو اس وقت خود بھی اس مرض سے واقف نہیں ہوتا کھانستا ہے؛ بولتا ہے؛ سانس لیتا ہے، ہنستا ہے یا چھینکتا ہے، تو یہ وائرس پانی کے نہ نظر آنے والے قطروں کی صورت میں ہوا میں معلق ہو جاتا ہے اور پھر سانس کی ذریعے یا ان مریضوں کے ہاتھوں سے ملائے جانے والے ہاتھوں کے ذریعے اس انسان کے جسم میں شامل ہوجاتا ہے، جو تمام تر وارننگ کو پس پشت ڈال کر اس وقت سمندر پر نہانے یا پہاڑوں پر گھومنے گیا ہوتا ہے – آج اگر مسجدوں میں بس جمعہ کی نماز ہی پڑھنے اور باقی نمازیں گھروں میں ادا کرنے کے فتوے جاری ہورہے ہیں- ملک میں سکول ‘کالج’ شادی ہال’ بڑے اجتماع اور کرکٹ اسٹیڈیم بند کردیے گئے ہیں- آج اگر دنیا میں حرم شریف’ کربلا’ کلیسے’ مندر’ ڈزنی لینڈ’ ایئرپورٹس’ بندرگاہیں، اور ٹرین اسٹیشن سب جام کردیے گئے ہیں تو کوئی تو سنجیدہ وجہ ہوگی جو آپ کے اتوار کے دن کراچی کے ساحل پر جانے ‘سمندر میں نہانے’ مری کے پہاڑوں کی سیر کرنے اور منال کی چائے پینے سے زیادہ اہم ہوگی- ان حالات میں سیر و تفریح کیلئے منال اور مری جانا، دعاؤں کیلئے درباروں میں اکٹھا ہونا اور گھروں میں سب کو بلا کر”باربی کیو” کرنا ایسے ہی ہے کہ کسی گھر میں آگ لگی ہو اور اس جلنے کی بدبو کو کم کرنے کیلئے آپ خود کو سائنسدان سمجھتے ہوئے اس پر “پرفیوم اور ایئر فریشنر” چھڑکنے لگیں جس سے وہ آگ بجھتے بجھتے پھر سے بھڑک اٹھے
——
پچھلے ایک ماہ سے اس شور شرابے کے باوجود نہ صرف پی ایس ایل کے بہت سے میچوں میں کراوئڈ کو روکنے میں تاخیر ہوئی بلکہ ہمارے ملک میں رائیونڈ تبلیغی اجتماع کو بھی وقت پر معطل نہ کیا جا سکا- تمام تر وارننگ اور تنبیہہ کے باوجود بھی ملک بھر سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد رائیونڈ (لاہور) میں اکٹھے ہوگئے اور وجہ یہ بتائی گی کہ ہم اپنی احتیاط خود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور “یہ سب اسلام کے خلاف سازش ہے”.. خدا خدا کرکے دو دن پہلے جب حکومت نے سختی اختیار کی تو اجتماع کینسل کیا گیا- ہزاروں لوگ واپس لوٹ گئے اور ہزاروں اب بھی کیمپوں میں مقیم اپنے بڑوں کے اگلے حکم کے منتظر ہیں- یہ سب اس وقت ہوا جب ‘حرم پاک’ مسجد نبوی اور عمرے بند کردیے گئے تھے- اسلام کی خدمت کے نام پر ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ ایک دوسرے کو کون کون سا تحفہ دے کر واپس چلے گئے اس کا اندازہ نہ ان کو ہوگا نہ ان کے بڑوں کو- یقین جانیے یہ نہ کسی بہادری اور جرات کی داستان ہے اور نہ کسی خدمت اور عقیدے کا بیان ہے- یہ اس لا علمی اور ہٹ دھرمی کی نشانی ہے جس کا بحثیت قوم ہم شکار ہیں- یاد رکھیے
—-
اٹلی جیسا ترقی یافتہ ملک جہاں وینٹی لیٹرز کی کمی کی وجہ سے بوڑھوں کو بیمار ہونے پر موت کی آغوش میں جانے دیا جارہا ہے‘… ایسے میں ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کے وسائل اس قدر محدود ہیں کہ خدا نخوستہ اگر یہ جن بوتل سے باہر آگیا تو ہمارے پاس قسمت کو دہائیاں اور حکومتوں کو گالیاں دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا– اس لئے التماس بس اتنی تھی کہ گھر بیٹھ کر فیس بک پر اس کرونا وائرس پر لطیفے بنائیں ‘تصویریں لگائیں ‘میمز شیئر کریں’ سیاستدانوں کی بینڈ بجائیں،” اس وائرس کے “سازش” ہونے اور گوروں پر عذاب ہونے کے موضوع پر آرٹیکل لکھیں- الغرض کچھ بھی ایسا کریں، جس کی وجہ سے آپ گھروں میں رہیں، لیکن ان سکولوں کی چھٹیوں کو “ویکیشن” سمجھ کر سیر و تفریح اور ہلے گلے سے پرہیز کریں، کیوں کہ یہ صرف آپ کی ہی نہیں، آپ کے اردگرد ہزاروں لوگوں کی زندگی کا سوال ہے جو ہرگز کوئی شغل نہیں ہے- ہر بات کا یہ جواب نہیں ہوتا کہ “کچھ نہی ہوتا“- کبھی کبھی ہو بھی جاتا ہے-

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

Comments

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More