Tribe Republic
Tribe Republic is a Digital Tree having shoots of numerous digital initiatives

Tragedy Film ” یہ سانحہ ہے ” – Narrative Poetry About Tragedy of Circumstances – Aabi Makhnavi

440

” یہ سانحہ ہے ”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اپنے خالق کی قدرتوں میں سے سب سے چھوٹا ، مہین سا ایک ذرہ ہوں جس کو انساں آنکھوں کے بل پہ دیکھے ! محال ہے یہ !! عجب مشینوں کے زور پر مجھ کو دیکھنے والے ڈر رہے ہیں نحیف سا ہوں کہ عمر میری کسی بھی جا پر پڑا رہوں تو چند گھنٹوں سے کیا ہے زیادہ !! جوان بوڑھے ، دَھائیاں دنیا میں جینے والے ! بارہ گھنٹے کی عمر والے سے ڈر رہے ہیں ! دراز قد ہیں ، حسین رُخ ہیں ، امیر بھی ہیں غریب بھی ہیں ! میں گِن کے سب کو ہی کھا رہا ہوں جنابِ انساں کی سرحدوں کو میں ایڑھیوں میں مسل رہا ہوں کوئی بھی گورا ، کوئی بھی کالا ، نہ کوئی عربی نہ کوئی عجمی !! خدا نے مجھ کو نہیں سکھایا کہ فرق رکھوں غذا میں اپنی !! وہ دائیں بازو کے کٹھ مُلے ہوں یا بائیں بازو کے چمچے کڑچھے !! یا ان سے نالاں ارسطو سُرخے !!خُدا نے مجھ کو نہیں سکھایا کہ فرق رکھوں غذا میں اپنی ! میں چُن کے سب کو ہی کھا رہا ہوں جنابِ انساں جو اعلیٰ ادنیٰ میں بٹ چکا تھا !! کسی کی گردن میں سریے فِٹ تھے تو کوئی ڈالرز کا طوق پہنے گِھسٹ رہا تھا غلام بن کر !!میں چند گھنٹوں کی عمر والا نحیف وائرس کرو ۔ ۔ ۔ نا اِسمِ گرامی میرا ! حسبِ اسمِ گرامی اپنے میں کر رہا ہوں ! سفر کے کاغذ نہ کوئی پرمٹ مگر میں ہر جا گزر رہا ہوں ! بہاؤ ٹسوے ، کنگھالو بٹوے ، لبوں پہ جھوٹے وظیفے لاؤ ، حرام کھا کر حلال بکروں کے صدقے دے کر خُدا کو چکر نہیں چلے گا !! کسی کے گھر میں جب آگ بھڑکی ، کسی کی بیٹی نے بھیک مانگی ، کسی کے بچے نے غوطے کھا کر جب ایک ساحل پہ دم توڑا !! تمھارے معمول کیوں نہ ٹوٹے ! تمھاری روٹین کیوں نہ بدلی ! پرائے زخموں کو کون روئے ! پرائی قوموں سے کیا ہے رشتہ ! پرائے بچوں ، پرائے بیٹوں نے گیس حملوں میں دم توڑا ! تمھارے معمول کیوں نہ ٹوٹے تمھاری روٹین کیوں نہ بدلی زندہ رہنے کا اِذن تھا تو ہزار قوموں میں تم بٹے تھے میں موت بن کر جو لپکا تم پر تو بھائی بھائی سے دِکھ رہے ہو ! یہ موت پُوری سزا نہیں ہے ! قسم خُدا کی اگر زمیں پر میں سارے انسان کھا بھی جاؤں تو ننھے ایلان کُردی کے مُردہ جسم میں سے جو دایاں گال اُس نے ترک ساحل پہ دھر دیا تھا ! اُس ایک معصوم گال کا بھی کفارہ مجھ سے ادا نہ ہو گا !! یہ وینٹی لیٹرز ، ماسک ، ویکسین کم پڑیں گے ! میں اِذنِ ربی سے ہی مروں گا !! اگر شِفا کی طلب ہے تُم کو تو ہر پڑوسی کے دُکھ کو سمجھو ! کسی بھی بے بس کے قتل کو اِک خبر نہ جانو ! پرائے بچوں کو اپنا مانو ! کسی بھی ظالم ، کسی بھی جابر ، کسی بھی آمر سے یُوں نہ دُبکو کہ جیسے وہ ہو خُدا تمھارا ! میں کتنا چھوٹا ہوں تُم بڑے تھے ! جنابِ اِنساں فرشتے سجدے میں جب پڑے تھے کمال تھا وہ !! اب انساں انساں سے ڈر رہا ہے یہ سانحہ ہے نہ ہاتھ کوئی مِلا رہا ہے ، نہ کام پر کوئی جا رہا ہے !! جنابِ اِنساں خود اپنا بویا ہی کھا رہا ہے یہ سانحہ ہے !!

۔۔۔۔۔۔

شاعر: عابی مکھنوی

آواز: میثم عباس

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

Comments

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More